یہ لیبارٹری اس شہر میں واقع ہے جہاں سب سے پہلے کورونا وائرس کی
وبا پھوٹی تھی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ امریکی حکومت اب ایسی غیر
مصدقہ اطلاعات کا جائزہ لے رہی ہے کہ یہ وائرس ایک لیبارٹری سے نکل کر دنیا میں
پھیلا۔
موجودہ کورونا وائرس کی وبا کے پھوٹنے سے متعلق اس دعوے کا کیا
مطلب بنتا ہے؟
واشنگٹن پوسٹ نے ذرائع سے یہ
سفارتی مراسلے حاصل کرنے کے بعد شائع کردیے۔
ان مراسلوں کے مطابق سنہ 2018 میں امریکی سائنسی سفارتکار متعدد
بار معائنے کے لیے چین کی ریسرچ لیبارٹری بھیجے گئے۔
ان سائنسی ماہرین نے امریکہ کو دو مرتبہ خبردار کیا کہ لیبارٹری
میں خاطر خواہ حفاظتی انتظامات موجود نہیں ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق چین میں یہ امریکی
سائنسی سفارتکار ووہان انسٹی ٹیوٹ آف وائیرولوجی (ڈبلیو آئی وی) میں حفاظتی اور
انتظامی کمزوریوں کو دیکھ کر پریشان ہو گئے اور انھوں نے مزید مدد کی درخواست کی۔
خبر کے مطابق یہ سفارتکار پریشان
تھے کہ اس چینی لیبارٹری میں چمگادڑوں سے پھیلنے والے وائرس پر تحقیق کسی سارس
جیسی وبا کا خطرہ بن سکتی ہے۔
امریکی اخبار کے مطابق سفارتی مراسلوں کے بعد امریکی حکومت کے اندر
یہ بحث زور پکڑ گئی کہ آیا ووہان کی یہ لیبارٹری یا چین کی کوئی اور لیبارٹری اس
وبا کی وجہ بنی ہے۔
واشنگٹن پوسٹ کے علاوہ امریکی ٹی
وی چینل فوکس نیوز نے بھی ایسی ایک خبر دی جس سے کورونا وائرس کے کسی لیبارٹری سے
شروع ہونے کی رائے کو تقویت ملتی ہے۔
یہ وبا گذشتہ سال کے آخر میں سامنے آئی جب اس وائرس سے متاثرہ کچھ
مریضوں کی بیماری کی وجہ کو ووہان کی ایک فوڈ مارکیٹ سے جوڑا گیا۔
بڑے پیمانے پر آن لائن سامنے آنے والی قیاس آرائیوں کے باوجود اس
بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ SARS-CoV-2 جو
کووڈ-19 کی وجہ بنا واقعی حادثاتی طور پر چین کی ایک لیبارٹری سے اخراج کے نتیجے
میں پھیلا۔
جن لیبارٹریز میں وائرس اور
بیکٹیریا پر تحقیق ہوتی ہے وہ جن حفاظتی انتظامات پر عمل کرتی ہیں، انھیں بی ایس
ایل یعنی بائیو سیفٹی لیول کہا جاتا ہے۔
لیبارٹری میں بی ایس ایل کے چار لیول ہوتے ہیں جس کا انحصار اس بات
پر ہوتا ہے کہ کن بائیولوجیکل ایجنٹس پر تحقیق کی جا رہی ہے۔
بائیوسیفٹی لیول 1 سب سے کم درجے کا ہوتا ہے اور اور لیبارٹریز اس
پر اس دوران عمل کرتی ہیں جب مشہور اقسام کے بائیولوجیکل ایجنٹس پر تحقیق ہو رہی
ہوتی ہے جو انسانوں کے لیے کسی لحاظ سے خطرناک نہیں ہوتے ہیں۔
لیول 4 پر لیبارٹریز میں انتہائی خطرناک جرثوموں پر تحقیق ہوتی ہے
جن میں سے صرف کچھ کے لیے ہی ویکسین یا علاج دستیاب ہوتا ہے: ایبولا، ماربرگ وائرس
اور روس اور امریکہ کی لیبارٹریز کی حد تک چیچک۔
تھوڑے بہت فرق کے ساتھ بی ایس ایل جیسے معیار پوری دنیا میں ہی
رائج ہوتے ہیں۔
کنگز کالج لندن کی بائیو سکیورٹی کی ماہر ڈاکٹر فلپا لینٹزوس کا
کہنا ہے کہ عام معیار کے بالکل برعکس روس میں سب سے بڑے لیول کو 1 جبکہ سب سے کم
لیول کو 4 کہا جاتا ہے۔ ان کے مطابق حقیقت میں جو حفاظتی اقدامات اور طریقے اختیار
کیے جاتے ہیں وہ بالکل ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔
ہ معیار کسی معاہدے کے
تحت لاگو نہیں کیے جاتے بلکہ بی ایس ایل کے مختلف لیول سے متعلق عالمی ادارہ صحت
نے ایک مینوئل شائع کر رکھا ہے۔
ڈاکٹر فلپا کا کہنا ہے کہ لیب میں ورکر اپنے آپ یا اپنی کمیونٹی کو
ان وائرسوں سے متاثر ہونے سے بچانا چاہتے ہیں اور ان وائرسز کی حادثاتی اخراج کو
روکنے کے لیے بہترین حفاظتی اقدامات متعارف کروائے گئے ہیں۔
ان کے مطابق اگر آپ عالمی سطح پر شراکت داروں کے ساتھ مل کر کسی
منصوبے پر کام کر رہے ہیں تو پھر لیبارٹری میں آپ کو متعلقہ معیار کے اطلاق کو
یقینی بنانا ہوگا۔
درحقیقت امریکی تحقیقاتی اداروں سے مدد کے علاوہ ووہان میں واقع
چین کا تحقیقاتی ادارہ ڈبلیو آئی وی امریکہ سے مالی امداد وصول کر رہا ہے۔
اس کا مختصر جواب تو یہی ہے کہ
جو کچھ واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہوا ہے اس سے ہمیں کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ ووہان کی
لیبارٹری کے سکیورٹی سسٹم میں کیا خامیاں تھیں۔
تاہم عمومی طور پر لیبارٹریز میں جرثوموں پر تحقیق کے دوران کیا
غلطیاں ہو سکتی ہیں اس کے بارے میں کچھ معلومات موجود ہیں۔
ڈاکٹر فلپا کے مطابق ان میں لیب تک کس کو رسائی ہے، سائنسدانوں اور
تکنیکی ماہرین کی تربیت، ریکارڈ رکھنے کے طریقہ کار، جرثوموں کی فہرست، حادثے کی
اطلاع کے طریقہ کار اور ہنگامی طریقہ کار شامل ہیں۔
حادثات تو ہوتے رہتے ہیں۔ سنہ
2014 میں واشنگٹن کے قریب واقع ایک تحقیقاتی مرکز میں گتے کے ڈبوں میں چیچک کی
چھوٹی چھوٹی بوتلیں پڑی ہوئی ملیں، جو بھول سے ان ڈبوں میں رہ گئی تھیں۔ سنہ 2015
میں امریکی فوج نے حادثاتی طور پر جنوبی کوریا کے ایک فوجی اڈے سمیت ملک بھر میں
واقع نو لیبارٹریز کے لیے مردہ کے بجائے زندہ اینتھریکس کے نمونے بھیج دیے۔
بڑی تعداد میں واقع تحقیقاتی لیبارٹریز میں مختلف حفاظتی نظام رائج
ہیں۔
لیبارٹریز جو بی ایس ایل-4 کے حساب سے بنائی گئی ہیں ان میں بہت
سخت انتظامات کیے جاتے ہیں کیونکہ یہاں انتہائی خطرناک جرثوموں پر کام ہوتا ہے۔
وکی پیڈیا میں 50 ایسی لیبارٹریوں کی فہرست مرتب کی گئی ہے جن میں ووہان میں واقع
ڈبلیو آئی وی بھی شامل ہے، تاہم ایسی لیبارٹریوں کی کوئی حتمی فہرست دستیاب نہیں
ہے۔
بی ایس ایل- 4 لیبارٹری میں خطرناک جرثوموں پر کام ہوتا ہے اور
یہاں بہترین حفاظتی انتظامات کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔ اس وجہ سے ان میں سے کسی لیب
سے متعلق حفاظتی انتظامات میں کوتاہی برتنا بہت اہم ہوجاتا ہے۔
جی ہاں جیسے ہی کورونا وائرس
منظر عام پر آیا تو محض قیاس آرائی ہوئی، جس کے بارے میں کوئی تصدیق نہیں ہوسکی کہ
اس کی بنیاد کیا ہے۔
جنوری میں ایک وائرل ہونے والی تھیوری کے مطابق یہ وائرس ایک لیب
میں حیاتیاتی ہتھیار کے طور پر تیار کیا گیا ہے۔
بارہا سائنسدان اس تھیوری کو مسترد کر چکے ہیں۔ سائنسدانوں کے خیال
میں یہ وائرس جانوروں سے پھیلا ہے اور زیادہ امکانات ہیں کہ یہ چمگادڑوں سے پھیلا۔
وائرس بنیادی سائنسی تحققیات کے مقاصد کے لیے بھی تخلیق کیے جا
سکتے ہیں۔
مثال کے طور پر ایسی تحقیق سے بیماری کا سبب بننے والے جرثوموں کی
صلاحیت کو بہتر کیا جا سکتا ہے تاکہ مستقبل میں ان کے ممکنہ رویے کو سمجھا جا سکے
اور یہ بھی معلوم کیا جا سکتا ہے کہ مستقبل میں اس وائرس کو بے اثر کیسے کیا جا
سکتا ہے۔
مارچ میں کورونا وائرس کے جینوم پر شائع ہونے والی ایک امریکی
تحقیق میں اس بات کا کوئی ثبوت نھیں ملا تھا کہ یہ وائرس تیار کیا گیا تھا۔
اس تحقیق کے ایک شریک مصنف کیلیفورنیا میں سکرپس ریسرچ ادارے کی
کرسٹیان اینڈرسن نے تحقیق شائع ہونے کے موقع پر کہا تھا کہ معلوم کورونا وائرس کے
ابھی تک دستیاب جینوم کی ترتیب کے موازنے سے ہم اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ
SARS-CoV-2 (کورونا وائرس) قدرتی طور پر پیدا ہوا ہے۔
اس کے بعد ایک الزام سامنے آیا کہ قدرتی طور پر پیدا ہونے والے اس
وائرس کا ایک لیب سے حادثاتی طور پر اخراج ہوا ہے۔
اس الزام کی وجہ ووہان کی سی فوڈ مارکیٹ کا ان دو تحقیقاتی اداروں
کے قریب ہونا تھا جہاں متعدی بیماریوں سے متعلق تحقیق ہو رہی تھی۔
ڈبلیو آئی وی کا چمگادڑوں کی
کورونا وائرسز پر تحقیق سرکاری ریکارڈ کا حصہ ہے۔ یہ تحقیقاتی کام قانونی طور پر
سر انجام دیا گیا، جو کئی عالمی جریدوں میں بھی شائع ہوا۔
چین کے سنہ 2000 کی دہائی کے اوائل میں سارس وبا کے تجربے کے بعد
یہ تحقیق کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔
ڈاکٹر فلپا کا کہنا ہے کہ اس (افواہ) کی شروعات کہاں سے ہوئی یہ
ایک بہت مشکل سوال ہے۔ ان کے مطابق یہ ممکن ہے کہ بائیو سکیورٹی سے متعلق ماہرین
کی باہمی بات چیت میں ووہان کی سی فوڈ مارکیٹ زیر بحث آئی ہو اور چین کے موقف پر
سوال اٹھایا گیا ہو۔
تاہم ابھی تک کوئی شواہد دستیاب نہیں ہیں کہ یہ
Sars-CoV-2 کی وجہ ووہان کا کوئی تحقیقاتی ادارہ تھا۔
جمعرات کو چین کے دفتر خارجہ کے ترجمان ژاؤ لیجان نے ایک نیوز
کانفرنس میں صحافیوں کو بتایا کہ عالمی ادارہ صحت کے حکام نے کئی بار کہا ہے کہ
ایسے کوئی ثبوت موجود نہیں ہیں کہ کورونا وائرس ایک لیبارٹری میں بنایا گیا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا، جو اس وبا پر قابو پانے کے لیے اپنے
اقدامات کی وجہ سے تنقید کا سامنا کر رہے ہیں، کہنا ہے کہ امریکی حکومت لیب سے اس
وائرس کے اخراج کی تھیوری پر تحقیقات کررہی ہے۔
امریکہ کی طرف سے چین پر کئی بار یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ اس
نے وبا پھیلنے کے ابتدائی دنوں میں شفافیت سے کام نہیں لیا اور امریکی وزیر خارجہ
مائیک پومپیو نے کہا کہ بیجنگ کو اس وائرس کے بارے میں جو کچھ معلوم ہے اس پر
سچائی سے بتانا ہوگا۔
دونوں ممالک میں جاری اس لفظی جنگ کے دوران انتہائی محنت طلب اور
بڑے پیمانے پر نہ نظر آنے والی سائنسی تحقیق جاری رہے گی کہ آخر اس وائرس کی اصلیت
کیا ہے۔
0 Comments